Sunday, 25 November 2018

Sabhi Ko Apna Samjhta Hon Kya Howa Hai Mujhay by (آشفتہ چنگیزی)

آشفتہ چنگیزی


Sabhi Ko Apna Samjhta Hon Kya Howa Hai Mujhay




سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
جو مڑ کے دیکھا تو ہو جائے گا بدن پتھر
کہانیوں میں سنا تھا سو بھوگنا ہے مجھے
میں تجھ کو بھول نہ پایا یہی غنیمت ہے
یہاں تو اس کا بھی امکان لگ رہا ہے مجھے
میں سرد جنگ کی عادت نہ ڈال پاؤں گا
کوئی محاذ پہ واپس بلا رہا ہے مجھے
سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں
ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے
ابھی تلک تو کوئی واپسی کی راہ نہ تھی
کل ایک راہ گزر کا پتہ لگا ہے مجھے
آشفتہ چنگیزی

Ronay Ko Bohat Roye Bohat Aah O Fghan Ki by (آشفتہ چنگیزی)


آشفتہ چنگیزی



Ronay Ko Bohat Roye Bohat Aah O Fghan Ki


رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
کٹتی نہیں زنجیر مگر سود و زیاں کی
آئیں جو یہاں اہل خرد سوچ کے آئیں
اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہر گماں کی
کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا
جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی
اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی
تاثیر سمجھتے تھے ہم آواز سگاں کی
الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ
تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی
پہلے ہی کہا کرتے تھے مت غور سے دیکھو
ہر بات نرالی ہے یہاں دیدہ وراں کی
آشفتہؔ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی
آشفتہ چنگیزی

Tabeer Is Ki Kya Hai Dhuwan Daikhta Hon Mein by (آشفتہ چنگیزی)

آشفتہ چنگیزی

Tabeer Is Ki Kya Hai Dhuwan Daikhta Hon Mein


تعبیر اس کی کیا ہے دھواں دیکھتا ہوں میں
اک دریا کچھ دنوں سے رواں دیکھتا ہوں میں
اب کے بھی رائیگاں گئیں صحرا نوردیاں
پھر تیری رہ گزر کے نشاں دیکھتا ہوں میں
یہ سچ ہے ایک جست میں ہے فاصلہ تمام
لیکن ادھر بھی شہر گماں دیکھتا ہوں میں
ہے روشنی ہی روشنی منظر نہیں کوئی
سورج لٹک رہے ہیں جہاں دیکھتا ہوں میں
آیا جو اس حصار میں نکلا نہ پھر کبھی
کچھ ڈوبتے ابھرتے مکاں دیکھتا ہوں میں
کھائے گی اب کے بار بھی آشفتگی فریب
صید طلسم شعلہ رخاں دیکھتا ہوں میں
آشفتہ چنگیزی

Thikanay Yun To Hazaron Tre Jahan Mein Thay by (آشفتہ چنگیزی)

آشفتہ چنگیزی

Thikanay Yun To Hazaron Tre Jahan Mein Thay




ٹھکانے یوں تو ہزاروں ترے جہان میں تھے
کوئی صدا ہمیں روکے گی اس گمان میں تھے
عجیب بستی تھی چہرے تو اپنے جیسے تھے
مگر صحیفے کسی اجنبی زبان میں تھے
بہت خوشی ہوئی ترکش کے خالی ہونے پر
ذرا جو غور کیا تیر سب کمان میں تھے
علاج ڈھونڈھ نکالیں گے اپنی وحشت کا
جنوں نواز ابھی تک اسی گمان میں تھے
ہم ایک ایسی جگہ جا کے لوٹ کیوں آئے
جہاں سنا ہے کہ سب آخری زمان میں تھے
آشفتہ چنگیزی

Tamam Jalna Jalana Fasana Hota Hoa by (عرفان صدیقی)


       عرفان صدیقی



Tamam Jalna Jalana Fasana Hota Hoa


تمام جلنا جلانا فسانہ ہوتا ہوا
چراغ لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہوا
عجب گداز پرندے بدن میں اڑتے ہوئے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہوتا ہوا
ہری زمین سلگنے لگی تو راز کھلا
کہ جل گیا وہ شجر شامیانہ ہوتا ہوا
نظر میں ٹھہری ہوئی ایک روشنی کی لکیر
افق پہ سایۂ شب بیکرانہ ہوتا ہوا
رقابتیں مرا عہدہ بحال کرتی ہوئی
میں جان دینے کے فن میں یگانہ ہوتا ہوا
عرفان صدیقی

Yeh Shehr Zaat Bohat Hai Agar Banaya Jaye by (عرفان صدیقی)

عرفان صدیقی

یہ شہر ذات بہت ہے اگر بنایا جائے

یہ شہر ذات بہت ہے اگر بنایا جائے
تو کائنات کو کیوں درد سر بنایا جائے
ذرا سی دیر کو رک کر کسی جزیرے پر
سمندروں کا سفر مختصر بنایا جائے
اب ایک خیمہ لگے دشمنوں کی بستی میں
دعائے شب کو نشان سحر بنایا جائے
یہی کٹے ہوئے بازو علم کیے جائیں
یہی پھٹا ہوا سینہ سپر بنایا جائے
سنا یہ ہے کہ وہ دریا اتر گیا آخر
تو آؤ پھر اسی ریتی پہ گھر بنایا جائے
عجب مصاف سکوت و سخن میں جاری ہے
کسے وسیلۂ عرض ہنر بنایا جائے

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں

Wasi Shah آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند ...