Sunday, 16 December 2018

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں



Wasi Shah

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں


آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے


دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے


کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں
موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے


ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس
ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے


چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے

کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر



Wasi Shah


کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر


کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر
میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں

اس لیے تم آؤ ملنے میں تو آ سکتی نہیں
ہر روایت توڑ کر اس بار میں نے کہہ دیا

تم جو ہو مصروف میں بھی بہت مصروف ہوں
تم جو ہو مشہور تو میں بھی بہت معروف ہوں

تم اگر غمگین ہو میں بھی بہت رنجور ہوں
تم تھکن سے چور تو میں بھی تھکن سے چور ہوں

جان من ہے وقت میرا بھی بہت ہی قیمتی
کچھ پُرانے دوستوں نے ملنے آنا ہے ابھی

میں بھی اب فارغ نہیں مجھ کو بھی لاکھوں کام ہیں
ورنہ کہنے کو تو سب لمحے تمھارے نام ہیں

میری آنکھیں بھی بہت بوجھل ہیں سونا ہے مجھے
رتجگوں کے بعد اب نیندوں میں کھونا ہے مجھے

میں لہو اپنی اناؤں کا بہا سکتا نہیں
تم نہیں آتی تو ملنے میں بھی آ سکتا نہیں

اس کو یہ کہہ کر وصی میں نے ریسیور رکھ دیا
اور پھر اپنی انا کے پاؤں پے سر رکھ دیا

خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں








Wasi Shah


خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں



خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں


ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت 
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں


تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں 
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں


جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں 
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہوں


Sunday, 2 December 2018

سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں (Wasi Shah)


Wasi Shah


سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں



سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ترے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی (Wasi Shah)



Wasi Shah


سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی                  


سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی 

یا میری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی 

وہ میری شکل میرا نام بھلانے والی 
اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی 

اِس زمین پہ بھی ہے سیلاب میرے اشکوں سے 
میرے ماتم کی سدا عرش حیلااتی ہوگی 

شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پہ جلا کر شامیں 
اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہوگی 

اس نے سلوا بھی لیے ہونگے سیاہ رنگ كے لباس 
اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی 

ہوتی ہوگی میرے بوسے کی طلب میں پاگل 
جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی 

میرے تاریک زمانوں سے نکلنے والی 
روشنی تجھ کو میری یاد دلاتی ہوگی 

دِل کی معصوم رگیں خود ہی سلگتی ہونگی 
جون ہی تصویر کا کونا وہ جلاتی ہوگی 

روپ دے کر مجھے اِس میں کسی شہزاادی کا 
اپنے بچوں کو کہانی وہ سناتی ہوگی

ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ (Wasi Shah)




Wasi Shah

ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ




ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ

ﻣﺤﺒﺖ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺟﺴﮯ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮ

ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ

ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺭﯾﺎ ﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ

ﻣﺤﺒﺖ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﺎ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﭘﮩﻨﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ
ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﭼﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺩﮐﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻟﯿﮑﻦ

ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﭽﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ 

گئے سرخم، گئے پُرنم، گئے فریاد ہوتے ہیں






آشفتہ چنگیزی

       

       گئے سرخم، گئے پُرنم، گئے فریاد ہوتے ہیں





گئے سرخم، گئے پُرنم، گئے فریاد ہوتے ہیں

تمہارے عاشقاں صاحب، بہت برباد ہوتے ہیں




قفس دِکھتا نہیں اُن کا، نہ زنجیریں دِکھیں لیکن

ہو جن پر خوف کا پہرا، وہ کب آزاد ہوتے ہیں؟ 




اماں مانگیں تَو کس دل سے ہمیں معلوم ہے واعظ!

فلک کے کارخانے میں ستم ایجاد ہوتے ہیں




کوئی بھی کام ہو مشکل، ہمیں آواز دے لینا

تمہارے شہر میں جاناں ہمِیں فرہاد ہوتے ہیں

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں

Wasi Shah آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند ...